برطانوی طبی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے بچے جو اپنے والدین کا کھانا (گھر کا پکا ہوا کھانا) کھاتے ہیں وہ ان بچوں کی نسبت زیادہ صحت مند ہوتے ہیں جو گھر کا کھانا نہیں کھاتے ہیں۔
لندن — اکیسویں صدی کی اس تیز رفتار زندگی میں سب ہی لوگوں کو وقت کی کمی کا سامنا ہے۔ ان میں ایسے والدین بھی شامل ہیں جن کے لیے بازاروں میں آسانی سے دستیاب بچوں کے کھانے پینے کی اشیاء اور تیار شدہ فروزن پکوان گویا کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ جھٹ پٹ مائیکرو ویوو میں تیار ہوجانے والے یہ کھانے بچوں کی بھی بے حد مرغوب غذا بن چکے ہیں لہذا ہر ماہ اچھی خاصی رقم خرچ کرنے کے بعد بھی خاتون خانہ کو یہ گھاٹے کا سودا معلوم نہیں ہوتا۔ بچوں میں فاسٹ فوڈ کھانے کی عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ اب انھیں گھر کا کھانا پسند نہیں آتا، ایسے میں والدین کے پاس بچوں کی ضد پوری کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا لیکن ہر بار اپنے بچے کی فرمائش پر اسے پزا، برگر اور چپس کھلاتے ہوئے کیا کبھی ہمیں یہ خیال آیا ہے کہ ہم اس کے ساتھ بھلائی نہیں کر رہے بلکہ ہم اس طرح اسے گھر کے کھانے سے مزید دور کرتے جارہے ہیں۔
برطانوی طبی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے بچے جو اپنے والدین کا کھانا (گھر کا پکا ہوا کھانا) کھاتے ہیں وہ ان بچوں کی نسبت زیادہ صحت مند ہوتے ہیں جو گھر کا کھانا نہیں کھاتے ہیں۔ یہ تحقیق ’یونیورسٹی ایڈنبرگ سینٹر فار ریسرچ فار فیملیز اینڈ ریلیشن شپ‘ میں ہوئی جس میں حصہ لینے والی ایک تجزیہ کار والریاء سکافیدا (valeria skafida) کا کہنا تھا کہ جو والدین بچوں کو ان کی پسندیدہ کھانوں کی پیشکش کرتے ہیں وہ دراصل انھیں گھر کے بنے ہوئے غذائیت سے بھر پور کھانے سے محروم کررہے ہوتے ہیں مثلاً ہو سکتا ہے کہ اس روز گھر کے کھانے میں سبزی موجود ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر جو بچے روزمرہ سنیک کی شکل میں مختلف کھانے کھاتے ہیں ان کے کھانوں میں غذائیت کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔
دوسری طرف ان تجزیہ کاروں نے بازاروں میں بچوں کے نام پر بکنے والے طرح طرح کے کھانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں بہت سی مائیں ایسے کھانوں کو بچوں کے اندر انڈیل رہی ہیں۔
یہ تحقیق ’سوشیالوجی ہیلتھ اینڈ النیس‘ میں شائع ہوئی ہے۔ جس میں 2 ہزار 2 سو بچوں نے حصہ لیا جن کی عمریں 5 سال تھیں۔ تحقیق میں دیکھا گیا کہ جب بھی بچوں کی خواہش پر انھیں پزا اور چپس کھانے میں دیا گیا تو انھیں اس کھانے سے کیلوریز تو مل رہیں تھیں لیکن اس میں غذائیت کی شرح بہت کم
تھی۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ گھر کا کھانا والدین کو یہ جاننے میں مدد فراہم کرتا ہے کہ آیا ان کا بچہ صحت مند کھانا کھا تا ہے یا نہیں کیونکہ اکثر بچے جب دن میں سنیک لیتے ہیں یا تنہا کھانا کھاتے ہیں تو والدین کو ان کی خوراک کے بارے میں صحیح اندازہ نہیں ہو پاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عموماً گھر کے پہلے بچے کی خوراک اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ غذائیت والی ہوتی ہے کیونکہ گھر میں بتدریج کھانے پینے کا انداز تبدیل ہوتا جاتا ہے۔
اس تحقیق میں شامل ایک تہائی والدین کا کہنا تھا کہ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے جب گھر کا ایک ہی کھانا پورے خاندان کو پسند آئے یا صرف تقریبات کے موقع پر ہی سارا خاندان ایک ہی کھانا کھاتا ہے۔ پانچ فیصد والدین نے بتایا کہ انھیں اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کا کم ہی موقع ملتا ہے۔
اس تحقیق کی سربراہ سکا فیدا کیا کہنا تھا کہ ’’سبھی لوگوں کا ایک ہی کھانا کھانا ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‘‘ انھوں نے مصروف والدین کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کو کھانا وقت یا بے وقت بھی دیا جاسکتا ہے لیکن شرط وہی ہے کہ یہ کھانا وہ ہو جو آپ خود کھاتے ہیں۔' ان کا کہنا تھا کہ ’’ایک ہی گھر میں والد اور بہن بھائیوں کے لیے علحیدہ علحیدہ کھانے تیار کرنے کے بجائے ایک ہی دیگچی میں سب کا کھانا پکنا چاہیے۔''
رائل کالج لندن کے بچوں کے ڈاکٹر کولن میچی نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں میں آئرن، زنک اور وٹامن ڈی کی کمی کو اکثر بچوں کی تنہا کھانا کھانے کی عادت سے جوڑا جاتا ہے تاہم ایک ہی کھانا کھانے کی وجہ سے بچوں کے بہت سے مسائل پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
جبکہ ماہر غذائیت مشیل اسٹورفر کا کہنا تھا ''ہو سکتا ہے اس تحقیق سے والدین کو نئے انداز سے سوچنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے کہ کس طرح وہ اس آسان حل کی مدد سے اپنا وقت بچا سکتے ہیں جس کے لیے انہیں سب سے پہلے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنی ہوگی اور گھر میں ایک صحت مند کھانے کا رجحان پیدا کرنا ہوگا۔
رپورٹ کے آخر میں تجزیہ کاروں نے ظاہر کیا ہے کہ 2 سال سے 12 سال کے بچوں کی بڑھتی ہوئی نشوونما کے دوران لی جانے والی غذائیت ان بچوں کو مستقبل میں موٹاپے اور دیگر موذی بیماریوں کے خلاف مضبوط بناتی ہے۔
جبکہ دوسری طرف ایسی غذا جو آج ہم اپنے بچوں کو خوش کرنے کے لیے انھیں کھلا رہے ہیں یہ خوراک نہ صرف ان کے لیے موٹاپے کا سبب بن سکتی ہے بلکہ مستقبل میں بھی ان کی صحت پر اس کے مضر اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔